کالم

ماں سے عورت

mother picture

ایک ماں کے دو بیٹے ہوں ایک اس کی خدمت میں لگا رہتا ہو اور دوسرا گھر چھوڑ گیا ہو ، ناخلف ہو یا ناراض ہو کر دور
چلا گیا ہو ،حقیقت ہے کہ ماں پھر بھی اس کی منتظر ہی رہتی ہے ، پہلا بیٹا پاس بیٹھا ماں کے پاوں دبا رہا ہوتا ہے ، دروازے پر آہٹ ہو تو ماں کا دل دھڑکتا ہے اور نظریں دروازے پر اس امید سے اٹھتی ہیں کہ شاید میرا دوسرا بیٹا واپس آگیا ہو ، خدمت گزار بیٹا جز بز ہوسکتا ہے کہ میں جو ہر وقت تیری خدمت میں ہوں مگرتجھے چھوڑ کر جانے والے کی فکر دامن گیر کیوں رہتی ہے تو ماں کتنی شفقت سے کہتی ہے کہ ہے تو وہ بھی میرا بیٹا ہی نا ، نجانے کس حال میں ہو ؟
ذرا سوچئے ۔۔۔ رب رحمان کا معاملہ بھی ایسا ہی تو ہے ، لوگ سجدے میں پڑے رہتے ہوں اور اُسے امید ہوتی ہے کہ میرا نافرمان یا مجھے بھلانے والا میرا فلاں بندہ واپس کب پلٹے گا ۔

ماں اس لئے بھی پیاری ہوتی ہے کہ رب رحمان کے سب سے زیادہ اوصاف اگر کسی ہستی میں ہوتے ہیں تو یہ ماں ہی ہوتی ہے ۔ رب اپنے بندوں کیلئے انتہائی مہربان ہوتا ہے ،ماں بھی تو اپنی اولاد کیلئے انتہائی شفیق ، نرم دل ، مہربان اور سب کچھ ان پر نچھاور کرنے والی ہوتی ہے ۔۔ اولاد نافرمانیاں کرتی ہے مگر ماں ہمیشہ معاف کردیتی ہے ،رب بھی تو یہی پکارتا ہے ،بندہ کتنا ہی خطا کا پتلا ہو حتی کہ باغی بھی صرف ایک توبہ پر ساری زندگی کے گناہ معاف ۔۔۔ ہوتا تو ایسا ہی ہے نا جب کوئی بیٹا یا بیٹی ماں سے روٹھ جائے مگر ماں پھر بھی روٹی بنا کر دیتی ہے کہ بھوکا نہ سوئے ۔۔۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے جب کو ئی بیٹا ماں سے روٹھا ہو اور ماننا چاہتا ہو وہ ہلکی سی جنبش کرے ماں کی جانب تو ماں آگے بڑھ کر اسے بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے گلے سے لگا کر چومتی ہے ۔۔ایسا ہی ہوتا ہےنا ۔۔۔ ماں کا تو یہ معمول ہی ہوتا ہے ۔۔۔تو رب رحمان بھی تو یہی پکارتا ہے کہ بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آتا ہوں بندہ دوڑ کر آتا ہے تو میں لپک کر آتا ہوں ۔۔
بس ہمیں ماں کی محبت کو رب کی محبت سے جوڑنا ہے جو ابدی اور لافانی ہے ۔

تعزیتی نشست

میاں مقصود احمد ماں کی عظمت کے گن گاتے دلوں میں رب کی محبت کا جذبہ جگاتے جا ر ہے تھے ، امریکہ سے آئے طیب شاہین کی والدہ کی وفات پر تعزیتی تقریب کے تمام شرکا کے دل ماں کی محبت اور شفقت سے بھرچکے تھے ،
میں چار بجے آفس سے نکلا تو ساڑھے چار بجے تک اسی تقریب میں پہنچنے کی جلدی تھی ، ٹریفک اور اشاروں کے باعث پونے پانچ بجے پہنچا تو تقریب شروع ہو چکی تھی ، وقاص انجم جعفری اور ذکراللہ مجاہد کا شکریہ جنہوں نے اس کا اہتمام کیا اور شرکت کی دعوت دی ۔ میاں مقصود احمد شرکا سے مخاطب تھے ،کہنے لگے کہ موت برحق ہے ،سب کو جانا ہے ، جانے والا اپنے وقت مقررہ پر چلا جاتا ہے اور پیچھے رہ جانے والے اس کے متعلقین جدائی کا صدمہ سہتے رہتے ہیں ، اپنے پیاروں کی جدائی کا غم بڑا ہوتا ہے ہر ایک کا الگ دکھ ہے ، باپ چلا جاتا ہے ،جوان اولاد کے جانے کا دکھ ہوتا ، بہن بھائی بیوی شوہر چچا تایا قریبی رشتہ دار ۔۔۔کوئی بھی جدا ہو تو ہر ایک کا دکھ ہوتا ہے مگر ماں کی جدائی ۔۔۔؟ ماں کی جدائی کاغم ہی الگ ہوتا ہے

ابھی میاں مقصود احمد کی گفتگو کا سحر ٹوٹا نہ تھا کہ تقریب میں موجود طیب گلزار کی چند باتوں نے سوچوں میں فکر کے نئے زاویے وا کر دئیے ۔۔ کہنے لگے کہ ماں کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا گیا ، ہمارے ہاں اردو ادب میں سب سے پہلی معروف ہونے والی چیز اقبال کی نظم تھی جس کا عنوان ” والدہ مرحومہ کے نام ” تھا ، اس بعد دوسری چیز جو مشہور ہوئِی وہ قدرت اللہ شہاب کی شہرہ آفاق تحریر تھی “ماں جی” ۔۔۔ تیسرے نمبر پر معروف ہونے والی تحریر الطاف حسن قریشی کی “امی جان” کے نام سے تھی ، جی ہندی کا لفظ ہے جیسے گاندھی جی ، اردو میں جان استعمال ہوتا ہے امی جان ۔
پھر اس کے بعد جو پراثر تحریر پڑھی وہ فرید پراچہ کی تھی میری امی کے نام سے ، اس تحریر میں ایک جگہ پراچہ صاحب لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنی والدہ کو کبھی پلیٹ میں کھانا کھاتے نہیں دیکھا تھا ، وہ سب بچوں اور گھر والوں کو ہانڈی سے کھانا نکال کر دیتی اور بعد میں اسی ہانڈی کا بچا کھچا کھانا خودپونچھ لیا کرتی ۔۔
طیب گلزارنے اس جذباتی لمحے میں قدرے توقف کیا ، اور پھر قدرے بلند آواز میں بولے کہ حضرات وہ ماضی کی ماں تھی جو اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اپنا سب کچھ شوہر اور اولاد پر وار دیتی تھی مگر تقاضا کچھ نہیں کرتی تھی ، جبکہ آج کہ ماں کی ڈیزائرز تو بہت ہیں مگر وہ ڈیزرو نہیں کرتی ۔۔۔
ماضی کی ماں ڈیزرو کرنے والی ہوتی تھی اور آج کی ماں ڈیزائر کرنے والی ہے ۔
ان کی اس بات نے چونکا دیا ۔۔اور پھر کہا کہ جناب یہ تہذیبی مسئلہ ہے ۔۔ ہمارے ہاں جو تہذیب در کر آئی ہے وہ عورت کو مرد سے مقابلے پر اکساتی ہے ، حالانکہ سادہ سی بات ہے کہ مقابلہ ایک جیسوں کے مابین ہوتا ہے ۔۔۔مردوں کا مقابلہ مردوں سے ہی ہوگا ، کہ کون سا مرد دوسرے مردوں سے بہتر اخلاق کردار کا حامل ہے اور ذمہ داریاں احسن انداز سے کرنے والا ہے اور کونسی عورت دیگر عورتوں سے کیسے احسن انداز سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے ۔
بہرحال اپنی نسلوں کو بچانے اور معاشرے کو سنوارنے کیلئے اس تہذیبی مسئلہ کا حل نکالنا آج کے دور کا بڑا چیلنج ہے ۔
طیب گلزار بڑی درمندی سے یہ چیلنج تقریب میں موجود امت کے بہی خواہوں کے حوالے کرچکے تھے ، اٹھتے ہوئے کامران رفیع نے مجھے کہا کہ اس پر افسانہ لکھوں ، عنوان بھی بتایا “ماں سے عورت” ۔۔اس کا کہنا تھا کہ ماضی کی خاتون عورت سے ماں کا سفر طے کرتی تھی ۔۔آج کی خاتون ماں سے عورت بننے نکل پڑی ہے ۔

میرا دوست کامران اس صورتحال کو افسانے میں ڈھالنے کی بات کر رہا تھا اور میں اس لڑکی کے بارے سوچنے لگا جس نے ڈگر ی مکمل کر لی ،جاب بھی شروع کر دی ۔۔مگر ہر وقت اپنے موبائل کی سیلفی سے اپنے آپ کو دیکھنے ،میک اپ سیٹ کرنے اور زلفیں سنوارنے میں ہی مصروف رہتی ہے ۔۔۔
آخریہ بھی تو ماں ہو گی ۔۔ہمارے ہی عہد کی ہوگی ۔۔۔! ” 🙁

About the author

ایڈمن

Add Comment

Click here to post a comment