میلہ سج چکا تھا ، دوردراز سے آئے خریداروں کے جم غفیر کو لبھانے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے تمام تاجر نت نئے انداز اپنائے ہوئے تھے ۔۔۔۔بازار میں سونے کا کاروبار ہوتا تھا ۔۔طریقہ کار یہ تھا کہ ہر پانچ سال بعد بستی میں ایک بڑا میلہ سجایا جاتا ۔۔ تاجر آتے اپنے اسٹال لگاتے لوگ ان سے سونا چاندی،ہیرے اور جواہرات خریدتے ۔۔ اور اس خریداری کے ذریعے اپنے پانچ سال پورے کرتے ۔۔ اس طرح پانچ سال گزرنے کے بعد دوبارہ میلہ سجایا جاتا ۔
ایک عرصے سے بستی کا نظام اسی فارمولے کے تحت چل رہا تھا ۔۔ لوگ خریداری کے بعد واپس معمولات زندگی گزارنے لگتے تو آہستہ آہستہ ان کے خریدے گئے سامان کے نقص سامنے آنے لگتے ۔ سونے پر پانی چڑھا ہوتا ، کسی کے ناپ تول وزن میں کمی ہوتی ، کسی کا ڈیزائن اس کے مطلوبہ معیار کا نہ ہوتا ، یوں پوری بستی میں
رفتہ رفتہ بے چینی اضطراب کی لہر دوڑنے لگتی ۔۔ اور لوگ شکوے شکایتوں کا انبار لگا دیتے ۔۔
معاملہ یہ تھا کہ بستی کے میلے کو بڑے بڑے ساہو کاروں نے یرغمال بنا رکھا تھا ۔۔عوام کو بے وقوف بنانے اور
لوٹنے کیلئے غیر معیاری ،ناقص مال پر لیپا پوتی کرکے اور اس کو فینسی لک دے کر بیچ دیا جاتا ۔۔۔ ۔۔ کچھ عرصے بعد جب مال کی ظاہری چمک دمک دھندلا جاتی تو حقیقت آشکار ہونے کے باوجود اب سوائے پچھتاوےئے اور شور مچانے کے عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔۔۔
عوام میں آہستہ آہستہ شعور آنے لگا تھا اور وہ اپنے لوٹنے جانے کے بعد قدرے منظم انداز سے شور مچانے لگتے ۔۔ان کے اس رد عمل کو دیکھتے ہوئے ساہو کاروں نے بھی اپنے فراڈ کو مربوط بنانا شروع کر دیا ۔۔۔ ساہو کاروں کا مافیا پورے میلے کو اپنے مضبوط شکنجے میں جکڑے ہوئے تھا ۔ ان کی مرضی کے خلاف کوئی کاروبار پنپ نہیں سکتا تھا ۔۔ کوئی نیا تاجر اپنی دکان لگاتا تو یہ اسے بآسانی بھاگنے پر مجبور کردیتے ۔۔اور اگر وہ ڈٹا رہتا تو منصوبہ بندی سے فلاپ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے ۔۔
پوری بستی میں صرف ایک جوہری تھا جو بڑی محنت سے خالص سونا تیار کرتا ۔۔۔ ۔ اسکی چھوٹی سے بھٹی تھی ۔۔ وہ خام مال لے کر لوہا کوٹتا آگ کی تپش میں خود بھی جلتا اپنے مال کو بھٹی سے گزارتا اور یوں اس کا سونا دن رات آگ میں جل کر کندن بن کر نکلتا ۔۔۔ جوہری کو خالص سونے کی تیاری کیلئے بڑے پاپڑ پیلنے پڑتے ۔۔۔پوری بستی میں اس جوہری کے علاوہ کسی کی بھٹی نہ تھی ۔ خالص سونا صرف اسی جوہری کے پاس تھا ، یہ بھٹی تین نسلوں سے گزر کر اس کے پاس پہنچی تھی ، اس سے قبل اس بھٹی کے مالک بھی اسی محنت اور لگن اور اخلاص سے خالص سونا تیار کرتے رہے تھے ۔ ۔۔مگر نجانے کیوں میلے میں اس کے سونے کی خاص پذیرائی نہ ہوتی ۔ اور یوں وہ خالص سونا ہونے کے باوجود مفلس و قلاش رہتا ۔۔۔
جوہری کو معلوم تھا کہ پوری بستی میں خالص سونا صرف اسی کے پاس ہی ہے ، اسے یقین تھا کہ جس روز بستی کے لوگوں نے اس کا سونا خرید لیا ان کی معاشی حالت بدل جائے گی ۔خوشحالی کا دور دورہ ہوگا ، اور لوگ آسودہ حال ہونگے ۔ مگر سونے نے میلے میں ہی بکنا تھا ۔ اور میلے میں ساہو کاروں کی مرضی کے بغیر نہ تو کسی کی دکان چلتی تھی اور نہ ہی مال بکتا تھا ۔
یوں تو بہت سی کمپنیاں اپنا مال بیچنے کیلئے میلے میں حصہ لیتی تھی ، سبھی کمپنیاں میلے میں ساہو کاروں کی اجارہ داری سے آگاہ تھی ، اسی لئے بہت سے تاجروں اور کمپنیوں نے ان ساہو کاروں سے تعلقات بنا رکھے تھے ، یہ سب ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے ۔۔۔ ساہو کار اپنے خاص تاجروں کو کسی نہ کسی کمپنی میں ایڈجسٹ کروادیا کرتے تھے ۔۔ کمپنیاں بھی ان تاجروں کو ساہو کاروں کے خاص تعلقات کے باعث زیادہ اہمیت دیتی تھی ۔
زمانہ جدید ہوا تو ساہو کاروں نے بھی نئے انداز اپنا لئے ۔ میلے کی جگہ پر بڑے بڑے خوبصورت پلازے اور وسیع عریض شاپنگ مالز بن چکے تھے ، چھوٹی موٹی کمپنیوں کی اوقات ہی اتنی نہ تھی کہ وہ ان بڑے شاپنگ مالز اور پلازوں کو خرید سکتی ، دو تین بڑی کمپنیوں میں ایک عرصے سے مارکیٹ میں اجارہ داری کی دوڑ لگی ہوئی تھی ، دونوں ہی دو تین بار مکمل طور پر اپنا اپنا مال پانچ پانچ سال بیچ کر عوام کو لوٹ چکی تھی ، ان کی دولت کے اثاثے اس قدر تھے کہ وہ میلے سے پہلے ہی زیادہ سے زیادہ پلازے اور شاپنگ مالز خرید لیتے ، لوگوں کی توجہ کیلئے نت نئی اسکیموں کا اعلان کرتے ۔۔ میلے سے قبل اپنے مال اور اسکیموں کی اتنی مارکیٹنگ اور پبلسٹی کرتے کہ لوگوں کی آنکھیں چندھیا جاتیں ۔ میلے کے وقت لوگوں کو اپنے پلازوں میں لانے کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ۔ لوگ چمکتے پلازوں اور روشنیوں میں لدے مالز کا رخ کرتے اور اس طرح ان ہی دو کمپنیوں میں سے کبھی کسی کا مال زیادہ بک جاتا تو بھی دوسرے کا ۔ ۔۔۔ بظاہر سب کام اوپن اور صاف انداز سے ہو رہا ہوتا ، مگر درحقیقت اس سارے نظام کا ساہو کاروں نے بڑی گہرائی سے جکڑ رکھا تھا ۔۔۔
معاملہ یہ تھا کہ ساہو کاروں نے بہت سے پلازے اور شاپنگ مالز اپنے بنا لئے تھے ، وہ اپنی مرضی کے لوگوں کو فرنچائز دیتے تھے ۔ جب کمپنیاں شاپنگ مالز میں سامان لے کر آتیں تو وہ ساہوکار وں سے ڈیل کرنے پر مجبور ہوتیں ، کمپنیاں ان سے معاملات طے کرکے ان کے فرنچائزوں میں اپنا سامان رکھوا تیں، ساہو کار بھی بڑے سیانے تھے وہ ہر دفعہ کسی ایک کمپنی سے اپنے معاملات طے کر لیتے ، اور اپنی فرنچائزوں تک ان کو رسائی دے دیتے ۔ اس طرح ان کی مرضی کی کمپنی کا مال بک جاتا ، اگر کمپنی ساہو کاروں سے معاملات بگاڑتی تو ساہو کار اپنے نیٹ ورک کے ذریعے عوام میں بے چینی کی لہر پیدا کر دیتے اور شور مچ جاتا کہ مال اتنا خراب مال بیچا گیا ہے لوگوں کی معاشی حالت خراب ہو گئی ہے یوں ساہو کار معینہ مدت سے قبل ہی دوبارہ میلہ لگا کر کسی اور کمپنی کا مال بکوا دیتے ۔
اس سارے منظر نامے میں قلاش جوہری کی صورتحال بڑی عجیب و غریب تھی ، قلاش جوہری کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ دونوں بڑِی کمپنیوں کی طرح عالیشان پلازوں اور شاپنگ مالز کا مالک بن جاتا ، اگر ایک دفعہ بھی اس کا سودا ایک تہائی بھی بک گیا ہوتا تو وہ اس پوزیشن میں آجاتا کہ پڑے شاپنگ مالز میں کچھ اس کی دسترس میں آجاتے ، مگر اس کو کبھی ایسا موقع ہی نہیں مل رہا تھا کہ اس کا ایک تہائی مال بھی کبھی فروخت ہو ۔
یوں جوہری پر ٹھپہ لگ گیا کہ اس کا مال نہیں بکتا ، لہذا نہ تو بڑی کمپنیاں جوہری کو کوئی معقول حصہ دینے پر رضا مند ہوتی اور نہ ہی عوام جوہری کی طرف رخ کرتے ۔
خدا ترس جوہری عوام کی حقیقی فلاح چاہتا تھا ، وہ لوگوں کو نیکی اور راست بازی کی تلقین بھی کرتا ، اور میلے میں نافذ سسٹم بدلنے پر بھی ابھارتا ، وہ انہیں یقین دلاتا کہ اس کے کاروبار پر اعتماد کیا جائے اور میلے کا اختیار اس کے سپرد کیا جائے تو وہ میلے کا مروجہ سسٹم تبدیل کرکے ایسا نظام نافذ کرسکتا ہے جس میں خالص سونے کی فروانی کی ساتھ ساتھ عوام کو مستقل اور دیر پا سہولتیں بھی میسر آسکیں گی ۔، لوگ اس کی محافل میں آکر اسکی نیکی اور راست بازی کی باتوں پر تو سر ہلاتے مگر سسٹم بدلنے اور اختیار اس کے سپرد کرنے کی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے ۔۔
جوہری نے زبانی جمع خرچ اپر اکتفا نہیں کیا ، اس نے وعظ وتبلیغ کے کام سے آگے بڑھ کر عوام کی خدمت کے بہت سے منصوبے بھی چلا رکھے تھے ، غریبوں میں مفت راشن کی تقسیم ،صحراوں میں پانی کے کنویں ، تعلیم کیلئے بہت سے اسکولز اور عوام کی صحت کیلئے بہت سے اسپتال قائم کر رکھے تھے ،وہ یہ سب خدمت اور عبادت سمجھ کر کرتا تھا۔ ۔۔ لوگ اس کے ان فلاحی منصوبوں کیلئے اسے عطیات تو دے دیتے تھے مگر میلے میں سونے کی خریداری کیلئے اس سے خالص سونا کبھی نہ لیتے ۔۔۔ لوگوں کا یہ رویہ جوہری اور اس کی مخلص ٹیم کیلئے تکلیف دہ تو تھا مگر وہ کبھی ہمت نہیں ہارا اور نہ ہی مایوس ہوا ۔
جوہری کا اصل معلہ یہ تھا کہ اس پر ٹھپہ لگا دیا گیا کہ اس کامال نہیں بکتا ، جس تاجر کے بارے میں مشہور ہوجائے کہ اس کا مال نہیں بکتا تو اسکو کون اپنی دکان میں مال رکھنے دے گا ۔۔؟ اور جس کے پاس بڑی دکان نہ ہوگی تو کون گاہک اس کے پاس آئے گا ؟ اپنے بل بوتے پر محض ٹھیلے لگا کر وہ کتنا مال بیچ سکتا تھا ۔
جوہری کے پاس مارکیٹ میں موجود دھوکہ فراڈ اور بدیانتی کرنے والے تاجروں کا سہارا لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔۔ مگر ان سہاروں کے باوجود اس نے اپنے اصول، وضع قطع ،روایات ، اپنا خالص سونا بنانے کا طریقہ اور نظریات نہ بدلے ۔۔اس نے دیگر کمپنیوں کی طرح دھوکہ دہی ،فراد اور کرپشن میں اپنے آپ کو آلودہ نہ کیا ۔ اس نے مارکیٹ میں جگہ بنانے کی خاطر مختلف ادوار میں مختلف کمپنیوں سے معاہدے کئے ، کبھی کسی سے شراکت داری کی کوشش کی کبھی کسی کا سہارا لیا ، مگر ہر بار کمپنیاں اپنے فوائد سمیٹ کر جوہری سے معاہدہ توڑ دیتیں ۔ کوئی بھی جوہری کے ساتھ طویل شراکت داری پر تیار نہ ہوتا کہ جوہری کا خالص سونا اگر زیادہ بکنے لگتا تو
عوام کو دھوکہ دینے والی کمپنیوں کی لوٹ مار کا پول کھل جاتا تھا۔
مارکیٹ میں اب نئی کمپنی کو لانے کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔۔پرانی کمپنی طویل راج کے دوران کافی مال سمیٹ
چکی تھی اور اب ساہو کاروں سے اس کے مفادات ٹکرانے لگے تھے ۔ ساہو کار پرانی کمپنی کے خاتمے اور نئی کمپنی کو لانے کا فیصلہ کرچکے تھے ، اس لئے پرانی کمپنی کے خلاف عوام کو لوٹنے کی مضبوط مہم چلائی گئی ، نئی کمپنی کو سارے ٹھیکے دے دئے گئے ،جوہری اس نئی کمپنی کے ساتھ بھی ایک موقع پر شراکت داری کر چکا تھا مگر اب نئی کمپنی نے ساہو کاروں کے ایما پر جوہری سے راستے الگ کر لئے، جوہری نے اپنی پرانی اتحادی کمپنی کو دوبارہ فعال کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ۔
۔بار بار کے سہاروں نے مارکیٹ میں جوہری کی نیک نامی کو نقصان پہنچایا تھا ، نئی کمپنی کے کارندوں نے ساہو کاروں کے ا یما پر جوہری کے خلاف منافقت کی مہم چلا کر لوگوں کو اس کے حوالے سے مزید کنفیوژ اور بدظن کر دیا تھا ۔ نئی کمپنی کی مہم اس قدر زور دار چلی کہ جوہری کے پرانے اتحاد سمیت بڑوں بڑوں کے برج الٹ گئے ۔اور پرانی کمپنی کی طویل اجارہ داری ختم ہوگئی ۔
حالیہ میلے میں عبرتناک ناکامی کے بعد جوہری اور اسکی ٹیم پر بظاہر گہرا سکوت طاری ہے ، بستی کے لوگ ابھی نئے تبدیل شدہ مال کے سحر میں کھوئے ہوئے ہیں ۔۔۔ مگر جوہری جانتا ہے کہ ایک دن پھر لوگوں کی امیدوں پر اوس پڑے گی ۔ نئی کمپنی کی ملمع کاری بھی عنقریب لوگوں پر آشکار ہو گی ۔ اور تبدیلی کے خواہاں بستی کے لوگ نئی کمپنی کی کساد بازاری سے دلبرداشتہ ہونگے ۔ بستی کا مخلص جوہر ی جانتا ہے کہ اُس وقت وہ اور اسکی دیانت دار ٹیم ہی لوگوں کےزخموں پر مرہم رکھ سکے گی ۔مگر اس کیلئے اسے مال بیچنے میں گزشتہ ناکامیوں ،اور سہارے لینے پر منافقت جیسے ٹھپوں سے خود کو نکالنے کی تیاری کرنی ہے ۔
جوہری کی عمر بھی اب ستتر برس ہو چکی
جوہری نے ایک بار پھر پرانی اتحادی کمپنی سے علیحدہ ہو کر اپنی اصل شناخت اور پہچان کو عوام الناس تک پہچانے کا فیصلہ کیا ہے ، اتحادی کمپنیوں کے عارضی سہارے اسے خاطر خواہ نتائج نہ دے سکے تھے بلکہ ان اتحادوں کے باعث اسکی امتیازی خصوصیات بھی عوام کی نظر سے اوجھل ہونے لگی تھیں ۔
جوہری جانتا ہے کہ مارکیٹ میں اب بھی خالص سونا صرف اسی کے پاس ہے۔
وہ آج بھی عوامی خدمت پر کاربند ہے اس کے اسکولز، اسپتال، پانی کے کنویں اور راشن تقسیم کے منصوبے آج بھی عوامی فلاح کیلئے فعال ہیں ، اسے یقین ہے کہ ایک تہائی مال فروخت ہونے پر وہ ساہوکاروں اور بڑی کمپنوں کے مقابل اپنے پاوں پر کھڑا ہو سکے گا اور عوام کو ساہو کاروں کے چنگل سے ہمیشہ کیلئے نجات بھی دلاسکے گا ،عوام کو حقیقی انصاف اور خوشحالی بھی تب ہی میسر آسکے گی ۔
جوہری جانتا ہے کہ مارکیٹ میں اب بھی خالص سونا صرف اسی کے پاس ہے۔
وہ آج بھی عوامی خدمت پر کاربند ہے اس کے اسکولز، اسپتال، پانی کے کنویں اور راشن تقسیم کے منصوبے آج بھی عوامی فلاح کیلئے فعال ہیں ، اسے یقین ہے کہ ایک تہائی مال فروخت ہونے پر وہ ساہوکاروں اور بڑی کمپنوں کے مقابل اپنے پاوں پر کھڑا ہو سکے گا اور عوام کو ساہو کاروں کے چنگل سے ہمیشہ کیلئے نجات بھی دلاسکے گا ،عوام کو حقیقی انصاف اور خوشحالی بھی تب ہی میسر آسکے گی ۔
مگر یہ ایک تہائی بزنس کیسے ملے ۔۔؟ قلاش جوہری کو اس کا جواب چاہییے۔
پس تحریر خبر :۔
جماعت اسلامی کی ایم ایم اے سے علیحدگی ، اپنے پرچم اور نشان پر جدوجہد کا فیصلہ ،سینیٹر سراج الحق کی میڈیا بریفنگ ۔۔
بہت خوبصورت انداز!